Sad
poetries Urdu by parveen shakir :
ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو
کبھی تو رنگ میرا ہاتھ کا حنائی ہو
کوئی تو ہو جو میرے تن کو روشنی بھیجے
کسی کا پیار ہوا میرے نام لائی ہووگلابی پاؤں میرے چمپئی بنانے کع
کسی صحن میں مہندی کی باڑھ اگائی ہو
کبھی تو ہومیرے کمرے ایسا منظر بھی
بہار دیکھ کے کھڑکی سے مسکرائی ہو
وہ سوتے جاگتے رہنے کے موسموں کا فسوں
کہ نیند میں ہوں مگر نیند بھی نہ آئی ہو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی
مہک میں چمپاکلی روپ میں چنبیلی ہوئی
میں سرد رات کی برکھا سے کیوں نہ پیار کروں
یہ رت تو ہے میرے بچپن کے ساتھ کھیلی ہوئی
زمیں پے پاؤں نہیں پڑرھے تکبر سے
نگارِغم کوئی دلہن نئی نویلی ہوئی
وہ چاند بن کے میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا
میں اس کے ہجر کی راتوں میں اکیلی ہوئی
جو حرف ادا کی صورت لکھی گئی
وہ لڑکی تیرے لئے کس طرح پہیلی ہوئی
٭٭٭٭٭٭٭
بعد مدت اے دیکھا لوگو
وہ ذرا بھی نہیں بدلا لوگو
اس کے چہرے پہ لکھا تھا لوگو
اس کی آنکھیں بھی کہے دیتی تھیں
رات بھر وہ بھی نہ سویا لوگو
اجنبی بن کے جو گزرا ہے ابھی
تھا کسی وقت میں اپنا لوگو
دوست تو خیر کوئی کس کا ہے
اس نے دشمن بھی نہ سمجھا لوگو
رات وہ درد مرے دل میں اُٹھا
صبح تک چین نہ آیا لوگو
پیاس صحراؤں کی پھر تیز ہوئی
ابر پھر ٹوٹ کے برسا لوگو
0 Comments